کیا پاکستان میں ایک اور جولانی تیار کیا جا رہا ہے؟ القاعدہ کے خلاف تحریک طالبان پاکستان کا فتنہ انگی

کیا پاکستان میں ایک اور جولانی تیار کیا جا رہا ہے؟ القاعدہ کے خلاف تحریک طالبان پاکستان کا فتنہ انگیز فتویٰ
پیش کرنے والا: محمد طارق مجاهد
یمن میں القاعدہ کے سابق رہنما کہتے ہیں: “دشمن کا مسئلہ صرف ہمارے قائدین کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ اس سے بڑا مسئلہ جماعت کو منحرف کرنا تھا۔ وہ ہمارے بھائیوں کو قتل کرتے ہیں اور ہمارے درمیان ایک نیا گروہ داخل کرتے ہیں جو تنظیم کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسے چلائے۔”
اس دشمن کی اس سازش کے ساتھ، ہم سب نے دیکھا کہ ترکی کی سیکولر اور مرتد حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر کس طرح ابو محمد الجولانی کو تیار کیا اور اسے شام کے جہاد اور انقلاب پر مسلط کیا، یہاں تک کہ شام کی موجودہ حکمرانی بھی اسے دے دی گئی، اور ایک اور عرب صہیونی، مزدور اور خائن کو مسلمانوں پر ’’جہاد‘‘ کے نام پر ایک نہایت حساس اسلامی سرزمین پر مسلط کیا۔ چنانچہ شروع ہی سے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے کے تحت، اور کھوکھلے بہانوں کے ساتھ اہلِ دعوت و جہاد اور امریکہ و مغرب کے مخالفین جیسے القاعدہ، حماس، جہادِ اسلامی وغیرہ سے لڑتا رہا، اور اپنی اس خیانت کو جواز دینے کے لیے غیر شرعی فتوے جاری کرتا رہا۔
اسی طرح تحریک طالبان پاکستان نے بھی ایک ایسا ہی اقدام کیا ہے، اور صرف اس وجہ سے کہ القاعدہ نے کچھ تحریریں نشر کیں جو انہیں ناگوار گزریں، انہوں نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں اپنے علاقائی ارکان کو اجازت دی گئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے ارکان کو قتل کر دیں۔
اگر القاعدہ کے کچھ افراد سوشل میڈیا میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کوئی تنقید کریں، تو اس کا حکم القاعدہ کے ارکان کو قتل کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ ہے کہ ان سے دلیل و استدلال کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
القاعدہ میں خوارج کے عقائد نہیں ہیں، حالانکہ خوارج نے جب تک مسلمانوں کو اسلحے سے قتل کرنا شروع نہیں کیا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف قتال نہیں کیا۔ حالانکہ یہی خوارج سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ہزاروں صحابۂ رسول ﷺ کو علانیہ کافر کہتے تھے۔
اس کے علاوہ، منافقین کے ساتھ بھی، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف بے شمار شبہے اور ذہنی جنگ برپا کی تھی، قتال کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ان سے دلیل اور برہان کے ساتھ بات کی گئی۔
وزیرستان میں القاعدہ کے افراد نہ خوارج ہیں اور نہ منافقین، لہٰذا تحریک طالبان پاکستان کا یہ غیر شرعی فتویٰ صرف اہلِ دعوت و جہاد کے خلاف خیانت کی بو دیتا ہے اور امریکہ و مرتدین کے محاذ کی خدمت دکھاتا ہے۔
اگر القاعدہ کے ارکان مقالات لکھتے ہیں تو آپ بھی شرعی علم کے ساتھ ان کے مقابلے میں اس سے طویل مقالات لکھیں، نہ کہ یہ فتویٰ دیں کہ اگر وہ کچھ کہہ دیں تو انہیں قتل کر دو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ القاعدہ نے ۲۰۱۴ کے بعد پاکستان میں کوئی علانیہ سرگرمی نہیں رکھی، اور تمام گروہوں سے ہر قسم کے ٹکراؤ سے پرہیز کیا۔ ان کی علانیہ سرگرمی یا تو صرف امریکہ کے خلاف جہاد کی دعوت اور اسی پر توجہ رہی، یا پھر وہ حافظ گل بہادر سے بیعت کر کے اتحاد المجاہدین پاکستان کی صف میں پاکستان کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف اور ہر قسم کی انحرافی داخلی جنگ سے دور سرگرم رہے۔
یہ کہ تحریک طالبان کے دارالافتاء نے کہا ہے کہ القاعدہ کو سخت نگرانی میں رکھا جائے، اور سوشل میڈیا میں کچھ لکھنے کے بہانے انہیں سازشی قرار دے کر ان کے قتل کو جائز کہا ہے؛ دراصل یہ خیانت کی بدبو اور امریکہ کے محاذ سے ہم آہنگی اور مغرب کو راضی کرنے کی کوشش ظاہر کرتا ہے۔
ہم تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مؤمنین کے سامنے ایسا تاثر پیدا نہ کریں کہ گویا وہ امریکہ اور مغرب کی صف میں کھڑے ہیں، اور پاکستان میں ایک اور جولانی کی پیدائش ہو رہی ہے۔




























هر چه در یک جامعه تعصبات قومی و مذهبی شدیدتر باشد آن جامعه از سعادت و آبادی بی بهره تر خواهد بود . (سید جمال الدین افغانی)